کیا زمیں کی خاک ہو جائیں گے ہم
اور فضا میں راکھ ہو جائیں گے ہم
کٹ رہی ہے جس طرح سے زندگی
دامنِ صد چاک ہو جائیں گے ہم
کیا کفارہ کر سکیں گے ہم ادا
اور گنہ سے پاک ہو جائیں گے ہم
خوف رقصاں ہے در و دیوار پر
خوف سے خاشاک ہو جائیں گے ہم
اس صدی کے بعد بھی ہے اک صدی
اس صدی کی خاک ہو جائیں گے ہم
کیا ہمارے نقش مل پائیں گے یا
گردشِ افلاک ہو جائیں گے ہم
مر نہ جائیں رفتہ رفتہ وہم سے
اور گھروں میں لاک ہو جائیں گے ہم
خوف کے موسم میں کیا شہزاد بیگ
صورتِ نمناک ہو جائیں گے ہم
شہزاد بیگ
No comments:
Post a Comment