اگر نہ درد سے اس دل کو آشنا کرتے
غمِ حیات کا کس طرح تجزیہ کرتے
خدا نخواستہ کشتی جو ڈوبنے لگتی
سوا خدا کے بھلا کیا یہ ناخدا کرتے
عجب نہیں تھا کہ آ جاتا ہوش میں بیمار
قریب آ کے جو دامن سے وہ ہوا کرتے
ہم ایسے رِند پسِ مرگ بھی وہاں جاتے
نہ پینا جرم ہو حکماً جہاں، پیا کرتے
سخی کے سامنے پھیلے ہوئے ہیں جن کے ہاتھ
ہم ایسے لوگوں سے کیا عرضِ مدعا کرتے
یہ دردِ دل تو ہے اس زندگی کا مترادف
مرض اگر کوئی ہوتا تو کچھ دوا کرتے
نہ ہوتے دل سے جو مجبور کر کے ترکِ وفا
اسے بھی ہم ذرا تڑپا کے تجربہ کرتے
تنک مزاجیٔ خوباں کا گر پتا ہوتا
مناتے پھر انہیں پہلے تو ہم خفا کرتے
نہ ہوتی اپنے پرائے کی پھر ہمیں تمیز
دغا نہ مل کے اگر یار آشنا کرتے
نیاز و ناز نہ یوں ہوتے لازم و ملزوم
نہ یوں کسی کے اشاروں پہ ہم چلا کرتے
درونِ دل کی صدا ہے مگر غزل ماہر
کہ شعر شعر پہ سامع ہیں واہ وا کرتے
ماہر بلگرامی
No comments:
Post a Comment