تم ازل ہی سے مسافر تھے کہاں پہنچے ہو؟
اور چلنے سے بھی قاصر تھے، کہاں پہنچے ہو
جلد بازی نے مجھے رہ میں گِرا کر مارا
اور تم مجھ سے بھی آخر تھے، کہاں پہنچے ہو
حکمِ شاہی سے ہے تشویش خلافِ کفار
عادتاً تم بھی تو کافر تھے، کہاں پہنچے ہو
جلدی آؤ، کہ مِری جان سکوں سے نکلے
تم کڑے وقت کے ناصر تھے، کہاں پہنچے ہو
صداقت طاہر
No comments:
Post a Comment