چلو دنیا سے ملنا چھوڑ دیں گے
مگر ہم آئینے سے کیا کہیں گے
چلیں گے روشنی ہو گی جہاں تک
پھر اس کے بعد تجھ سے آ ملیں گے
یہاں کچھ بستیاں تھیں اب سے پہلے
ملا کوئی تو یہ بھی پوچھ لیں گے
یہ سایہ کب تلک سایہ رہے گا؟
کہاں تک پیڑ سورج سے لڑیں گے
چراغ اس تیرگی میں کب جلے گا
یہ شہر آباد ہیں، پر کب بسیں گے
جو حسن کشمکش ہے در تہِ آب
سُبک سارانِ ساحل سے کہیں گے
جنہیں ساجد غمِ آئندگاں ہے
سرودِ شامِ رفتہ کیا سنیں گے
ساجد امجد
No comments:
Post a Comment