مجھے بھی اب تو وہ اپنا دِکھائی دینے لگا
جو میرے نام کو دل تک رسائی دینے لگا
اگرچہ بھول ہی جانے پہ وہ مُصِر ہے مگر
اسے میں دل سے کہاں اب رہائی دینے لگا
عجیب سحر تھا اس شوخ کی نگاہوں میں
میں اپنے دل کی جسے آشنائی دینے لگا
ابھی کل ہی تو کیا تھا کسی نے عہدِ وفا
اور آج ہی سے عجب کج وفائی دینے لگا
ہمارا عشق جو نازاں تھا خود پہ نادم ہے
تغافل ان کا جسے جگ ہنسائی دینے لگا
سب ایک دوجے کو پیہم تکیں گے روزِ حساب
پہ کون کس کو بھلا کچھ کمائی دینے لگا
نفس نفس ہے فلسطیں کا خوش گمان اشعر
منافقوں سے مدد کی دہائی دینے لگا
منیف اشعر
No comments:
Post a Comment