عارفانہ کلام نعتیہ کلام
آنے والو یہ تو بتاؤ شہرِ مدینہ کیسا ہے
سر انؐ کے قدموں میں رکھ کر جھک کر جینا کیسا ہے
گنبدِ خضریٰ کے سائے میں بیٹھ کر تم تو آئے ہو
اس سائے میں رب کے آگے سجدہ کرنا کیسا ہے
دل آنکھیں اور روح تمہاری لگتی ہیں سیراب مجھے
انؐ کے در پہ بیٹھ کے آبِ زمزم پینا کیسا ہے
دیوانو! آنکھوں سے تمہاری اتنا پوچھ تو لینے دو
وقتِ دعا روضے پہ انؐ کے آنسو بہانا کیسا ہے
اے جنت کے حقدارو، مجھ منگتے کو یہ بتلاؤ
انؐ کی سخا سے دامن کو بھر کر آنا کیسا ہے
لگ جاؤ سینے سے میرے طیبہ سے تم آئے ہو
یہ بتلاؤ عشرت ان کے گھر سے بچھڑنا کیسا ہے
عشرت گودھروی
No comments:
Post a Comment