Sunday, 26 December 2021

شجر تو کب کا کٹ کے گر چکا ہے

 شجر تو کب کا کٹ کے گر چکا ہے

پرندہ شاخ سے لپٹا ہوا ہے

سمندر ساحلوں سے پوچھتا ہے

تمہارا شہر کتنا جاگتا ہے

ہوا کے ہاتھ خالی ہو چکے ہیں

یہاں ہر پیڑ ننگا ہو چکا ہے

اب اس سے دوستی ممکن ہے میری

وہ اپنے جسم کے باہر کھڑا ہے

بہا کر لے گئیں موجیں گھروندا

وہ بچہ کس لیے پھر ہنس رہا ہے


سلیم انصاری

No comments:

Post a Comment