پھولوں سے بہاروں میں جدا تھے تو ہمیں تھے
کانٹوں کی چبھن پہ بھی فدا تھے تو ہمیں تھے
بازارِ تمنا میں تو ہر شخص مگن تھا
ہر موڑ پہ دنیا سے خفا تھے تو ہمیں تھے
جس بت کو تصور میں خدا مان لیا تھا
اس بت کی نگاہوں میں خدا تھے تو ہمیں تھے
احباب کو حالات کی سازش کا گِلہ تھا
ہر حال میں راضی بہ رضا تھے تو ہمیں تھے
گِرتی ہوئی دیوار کا سایہ تھا تِرا ساتھ
پھر بھی تِری باہوں سے جدا تھے تو ہمیں تھے
آئینۂ ایام کی رنگین فضا میں
اے راز! گرفتارِ بلا تھے تو ہمیں تھے
اطہر راز
No comments:
Post a Comment