جو اس نے مجھ سے کہا تھا وہی ہوا آخر
کہ میں نے اس کو فراموش کر دیا آخر
یہ راستوں کا بدلنا تجھی سے سیکھا ہے
نکال لیں گے کوئی ہم بھی راستہ آخر
قدم زمیں سے اٹھے تھے، دل آسماں سے ہٹا
یہاں تک آ گیا ہجرت کا سلسلہ آخر
مِرا گناہ، سزا و جزا سے باہر ہے
سنا دیا مِرے منصف نے فیصلہ آخر
ہوا کا خوف فقط جال ٹوٹنے تک تھا
پرندہ حدِ نظر سے نکل گیا آخر🕊
ساجد امجد
No comments:
Post a Comment