Saturday, 25 December 2021

کر تو رہا ہوں آہ و فغاں اور کیا کروں

 کر تو رہا ہوں آہ و فغاں اور کیا کروں

دکھلاؤں کیسے سوزِ نہاں اور کیا کروں

دیوار و در کے ساتھ ہی یہ عمر کاٹ دی

دیکھا نہ کوئی سنگِ نشاں اور کیا کروں

تا عمر حسنِ ظن کا رہا ہوں شکار میں

چھوڑا نہیں یہ دشتِ گماں، اور کیا کروں

کس کس طرح سے عشق نے مانگا نہیں خراج

سُلجھا رہا ہوں زُلفِ بتاں، اور کیا کروں

جو کچھ ملا وہ نامِ محبت لکھا ملا

بعد اس کے فکرِ سود و زیاں اور کیا کروں

اپنی مخالفت میں چلا آندھیوں کے ساتھ

چھوڑا نہ کوئی نقش و نشاں اور کیا کروں

جل تو رہا تھا کب سے تغافل کی آگ میں

اڑ تو رہا ہوں بن کے دھواں اور کیا کروں

رشتوں میں بانٹ کر خوشی اپنے نصیب کی

جا تو رہا ہوں کوئے زیاں اور کیا کروں

کاشف حصارِ عشق میں آ کر مجھے بھی کاش

ہوتی خبر کہ کیسے، کہاں اور کیا کروں


کاشف علی ہاشمی

No comments:

Post a Comment