ہر کسی سے تو گزارش نہیں کی جا سکتی
تیرے بارے میں نمائش نہیں کی جا سکتی
یوں تو اس دل سے گزرتے ہو کئی برسوں سے
کیا کبھی اس میں رہائش نہیں کی جا سکتی
سامنے تُو ہو تو بس دیکھتے رہنا ہے مجھے
ایسے حالات میں جنبش نہیں کی جا سکتی
تیری آنکھوں سے تو ہو سکتی ہیں باتیں، لیکن
تجھ کو چُھو لینے کی کوشش نہیں کی جا سکتی
زندگی سونپ تو دی ہے تجھے ہم نے، لیکن
عمر بھر ایسی نوازش نہیں کی جا سکتی
تُو جو آ جائے تو ہو جائے گا جل تھل موسم
خشک آنکھوں سے تو بارش نہیں کی جا سکتی
بدگمانی وہ مِرے بارے میں رکھتا ہے بہت
میرے شہروں سے تو رنجش نہیں کی جا سکتی
میں سلیقے سے گزرتا ہوں وہاں سے شہزاد
اس سے بڑھ کر تو پرستش نہیں کی جا سکتی
شہزاد بیگ
No comments:
Post a Comment