Saturday 25 December 2021

ہر کسی سے تو گزارش نہیں کی جا سکتی

 ہر کسی سے تو گزارش نہیں کی جا سکتی

تیرے بارے میں نمائش نہیں کی جا سکتی

یوں تو اس دل سے گزرتے ہو کئی برسوں سے

کیا کبھی اس میں رہائش نہیں کی جا سکتی

سامنے تُو ہو تو بس دیکھتے رہنا ہے مجھے

ایسے حالات میں جنبش نہیں کی جا سکتی

تیری آنکھوں سے تو ہو سکتی ہیں باتیں، لیکن

تجھ کو چُھو لینے کی کوشش نہیں کی جا سکتی

زندگی سونپ تو دی ہے تجھے ہم نے، لیکن

عمر بھر ایسی نوازش نہیں کی جا سکتی

تُو جو آ جائے تو ہو جائے گا جل تھل موسم

خشک آنکھوں سے تو بارش نہیں کی جا سکتی

بدگمانی وہ مِرے بارے میں رکھتا ہے بہت

میرے شہروں سے تو رنجش نہیں کی جا سکتی

میں سلیقے سے گزرتا ہوں وہاں سے شہزاد

اس سے بڑھ کر تو پرستش نہیں کی جا سکتی


شہزاد بیگ

No comments:

Post a Comment