اس عالمِ عشق و مستی میں ہم عاشق کیا حیران بنے
کبھی میر بنے کبھی درد بنے کبھی غالب کا دیوان بنے
کوئی جان نہ لے کوئی پوچھ نہ لے ان زخموں کو ان باتوں کو
تجھے دیکھ لیا،۔ دل شاد کیا،۔ قربان گئے،۔ انجان بنے
کچھ باتیں گئے زمانوں کی کچھ راتیں سوچنے والوں کی
یہ باتیں راتیں ساتھی ہوں، پھر کون سا دکھ ارمان بنے
کچھ لوگ ملیں کچھ پھول کھلیں کچھ راہ کٹے کچھ دھیان بٹے
یہ سورج کب تک ساتھ چلے یہ مشکل کیا آسان بنے
اب کوئی نہیں اور تم بھی نہیں مرے گھر کی قسمت خوب کھلی
اک عمر کو میں ویران ہوا، تم چار گھڑی مہمان بنے
کشتی کو کنارہ مل نہ سکا اب ایک ہی صورت باقی ہے
پتوار گرا دو ہاتھوں سے، جو لہر اٹھے طوفان بنے
یا آنکھیں بھیگی رہتی تھیں یا دل بھی ساجد دکھتا نہیں
کیا اسم کسی نے پھونک دیا ہم زندہ تھے بے جان بنے
ساجد امجد
No comments:
Post a Comment