آ مجھے پھر سے لڑکپن کی شرارت دے جا
ہاتھ رکھ کر آنکھوں پہ، بجھارت دے جا
اپنے ہونے پہ بھی مجھ کو ہے نہ ہونے کا گماں
میرے ہونے کی مجھے تُو ہی بشارت دے جا
وقت بے کار مشاغل میں کہاں تک کاٹوں
اپنی آنکھوں کو ہی پڑھنے کی عبارت دے جا
ہجر کی برف تلے گھٹ کے نہ رہ جائے دم
زندہ رہنے کے لیے تھوڑی حرارت دے جا
بے گھری، در بدری، کوئی ٹھکانہ ہی نہیں
سر چھپانے کے لیے دل کی عمارت دے جا
حسرتِ دید میں سورج!! تو ہوا نابینا
سرمۂ وصل لگا، نورِ بصارت دے جا
صدیق سورج
No comments:
Post a Comment