عجیب کچھ بھی نہ تھا، پھر بھی کچھ عجیب ہی تھا
وہ مجھ سے دور تھا، لیکن مِرے قریب ہی تھا
خبر انوکھی نہیں یہ کہ میں مَرا، لیکن
انوکھا یہ ہے کہ قاتل مِرا طبیب ہی تھا
مجھے قبول کہ غلطی نہ تھی امیر کی کچھ
کچل دیا جسے گاڑی نے وہ غریب ہی تھا
جسے میں اپنا سمجھتا تھا، غم دیا اس نے
سکون جس سے ملا وہ مِرا رقیب ہی تھا
نہیں ہے غم کہ اسے پا کے کھو دیا عمار
کہ اس سے مل کے بچھڑنا مِرا نصیب ہی تھا
عمار ضیا
No comments:
Post a Comment