Saturday, 25 December 2021

ششدر و حیران ہے جو بھی خریداروں میں ہے

  ششدر و حیران ہے جو بھی خریداروں میں ہے

اک سکوت بے کراں ہر سمت بازاروں میں ہے

نوبتِ قحطِ مسیحائی یہاں تک آ گئی

کچھ دنوں سے آرزوئے مرگ بیماروں میں ہے

وہ بھی کیا دن تھے کہ جب ہر وصف اک اعزاز تھا

آج تو عظمت قباؤں اور دستاروں میں ہے

اڑ رہے ہیں رنگ پھولوں کے فقط اس بات پر

التفات فصل گل کا ذکر کیوں خاروں میں ہے

اے مِرے ناقد!! مِرے اشعار کم پایہ سہی

کم سے کم ابلاغ تو میرے سخن پاروں میں ہے

بجھ نہیں سکتی کسی صورت ہوس کی تشنگی

بحرِ بے پایاں بھی بارش کے طلبگاروں میں ہے

خوبصورت شکل میں ہم سب درندے ہیں اسد

آدمی کہتے ہیں جس کو وہ ابھی غاروں میں ہے


اسد جعفری

No comments:

Post a Comment