Monday, 27 December 2021

آج تک بہکا نہیں باہر سے دیوانہ ترا

 آج تک بہکا نہیں باہر سے دیوانہ تِرا

حوصلے میری نگاہوں کے ہیں پیمانہ ترا

رات بھر شبنم کی آنکھوں سے سحر کی مانگ میں

میں جسے لکھتا رہا، وہ بھی تھا افسانہ ترا

یہ تِرے دریا سلامت، یہ تِرے بادل بخیر

لُٹ رہے ہیں خُم پہ خُم، ثابت ہے مے خانہ ترا

آنسوؤں کی آبجُو حائل ہے، ورنہ لاؤں میں

میری نظروں کا شرر آنکھوں کا خس خانہ ترا

دل میں دھڑکن کی طرح سانسوں میں خوشبو کی طرح

اب خیالوں میں بھی کب آتا ہے وہ آنا ترا

اول اول تو تمازت دوپہر کے دشت کی

آخر آخر اپنی نظروں کو جُھکا جانا ترا

ریزہ ریزہ کر گئی پتھر کو بھی شبنم کی چوٹ

ہائے، کس دل سے مگر وہ مجھ کو سمجھانا تر


لطف الرحمٰن

No comments:

Post a Comment