Monday, 27 December 2021

مٹیالی قبروں پر بارش گرتی ہے

بارش گرتی ہے

مٹیالی قبروں پر بارش گرتی ہے

حد نظر تک جل تھل

سیلا سیلا خواب مسلسل

یاد نہیں میں نے بارش کو پہلی بار کہاں دیکھا تھا

کھڑکی میں یا خواب میں

چھت پر یا دریا کے کنارے

ایفریقا کے بچوں کی بنجر آنکھوں میں

یا بنگال میں ننگی لاشوں والے سوگی ساحلوں پر

کتنی بارشیں دفن ہیں جانے اس بارش کے نیچے

ایک گلی کے ٹھنڈے پانی میں بھولا بچپن چلتا تھا

ایک مہکتا آنچل کوئی گیلا چہرہ پونچھ رہا تھا

جانے کہاں میں پھینک آیا ہوں

وہ دل اور وہ جوتے

تیرتی تختیاں بھیگے بستے

پیاسی کوک کسی کوئل کی

دور ہری تنہائی میں

اک گیت جو اس کے لب نے میرے لب سے جڑ کر گایا تھا

اک جلتی بجھتی شام جدائی

ساون کی پہلی بوندوں میں

جس نے اتنے رنگ بھرے تھے

میری عمر کے خالی پن میں

آج خود اس کا اپنا کوئی رنگ نہیں

مٹیالی قبروں پر بارش گرتی ہے

بے مقصد ہے جیسے زندگی

بے معنی ہے جیسے موت


افتخار بخاری

No comments:

Post a Comment