شِکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے
رِشتہ ہی مِری پیاس کا پانی سے نہیں ہے
کل یوں تھا کہ یہ قیدِ زمانی سے تھے بے زار
فرصت جنہیں اب سیرِ مکانی سے نہیں ہے
چاہا تو یقیں آئے نہ سچائی پہ اس کی
دہراتا نہیں میں بھی گئے لوگوں کی باتیں
اِس دور کو نِسبت بھی کہانی سے نہیں ہے
کہتے ہیں میرے حق میں سخن فہم بس اتنا
شعروں میں جو خوبی ہے معانی سے نہیں ہے
شہریار خان
No comments:
Post a Comment