Friday 29 May 2015

مکان دل سے جو اٹھتا تھا وہ دھواں بھی گیا

مکانِ دل سے جو اٹھتا تھا وہ دھواں بھی گیا
بُجھی جو آتشِ جاں، زِیست نشاں بھی گیا
بہت پناہ تھی اس گھر کی چھت کے سائے میں
وہاں سے نکلے تو پھر سر سے آسماں بھی گیا
بڑھا کچھ اور تجسس، جلا کچھ اور بھی ذہن
حقیقتوں کے تعاقب میں، میں جہاں بھی گیا
رہے نہ ساتھ جو پچھتاوے بھی تو رنج ہوا
کہ حاصلِ سفرِ عمرِ رائیگاں بھی گیا
نشان تک نہ رہا اپنے غرق ہونے کا
دکھائی دیتا تھا جو، اب وہ بادباں بھی گیا
بھرا تھا دامنِ خواہش، تو حشر برپا تھا
ہُوا تہی، تو پھر آوازۂ سگاں بھی گیا
اب اس اداس حویلی سے اپنا کیا رشتہ
مکیں کے ساتھ ہمارے لیے مکاں بھی گیا
بساطِ دہر پہ شِہ مات ہو گئی ہم کو
ریاضؔ وہ بھی نہ ہاتھ آیا، نقدِ جاں بھی گیا

ریاض مجید​

No comments:

Post a Comment