Friday, 29 May 2015

دو روز میں شباب کا عالم گزر گیا

دو روز میں شباب کا عالم گزر گیا
“بدنام کرنے آیا تھا، بدنام کر گیا”
بیمارِ غم، مسِیحا کو حیران کر گیا
اٹھا، جھکا، سلام کِیا، گِر کے مر گیا
گزرے ہوئے زمانے کا اب تذکرہ ہی کیا
اچھا گزر گیا، بہت اچھا گزر گیا
دیکھو یہ دل لگی، کہ سرِ رہگزارِ حُسن
اِک اِک سے پوچھتا ہوں مِرا دل کدھر گیا
اے چارہ گر! منا مِرے تیغ آزما کی خیر
اب دردِ سر کی فکر نہ کر، دردِ سر گیا
اے میرے رونے والو! خدارا، جواب دو
“وہ بار بار پوچھتے ہیں ”کون مر گیا
شاید سمجھ گیا مِرے طولِ مرض کا راز
اب چارہ گر نہ آئے گا، اب چارہ گر گیا
جلوہ دِکھا کے چھپ گیا وہ شوخ، اور ہمیں
وقفِ نزعِ مسجد و بت خانہ کر گیا
اب ابتدائے عشق کا عالم کہاں حفیظ
کشتی مِری ڈبو کے وہ دریا اتر گیا​

حفیظ جالندھری

No comments:

Post a Comment