Saturday 23 May 2015

یہ قافلے یادوں کے کہیں کھو گئے ہوتے

یہ قافلے یادوں کے کہیں کھو گئے ہوتے
اِک پَل بھی اگر بھول سے ہم سو گئے ہوتے
اے شہر! تیرا نام و نشاں بھی نہیں ہوتا
جو حادثے ہونے تھے اگر ہو گئے ہوتے
ہر بار پلٹتے ہوئے گھر کو یہی سوچا
اے کاش، کسی لمبے سفر کو گئے ہوتے
ہم خوش ہیں ہمیں دھوپ وراثت میں ملی ہے
اجداد کہیں پیڑ بھی کچھ بو گئے ہوتے
کس منہ سے کہیں تجھ سے سمندر کے ہیں حقدار
سیراب سرابوں سے بھی ہم ہو گئے ہوتے

شہریار خان

No comments:

Post a Comment