یہ قافلے یادوں کے کہیں کھو گئے ہوتے
اِک پَل بھی اگر بھول سے ہم سو گئے ہوتے
اے شہر! تیرا نام و نشاں بھی نہیں ہوتا
جو حادثے ہونے تھے اگر ہو گئے ہوتے
ہر بار پلٹتے ہوئے گھر کو یہی سوچا
ہم خوش ہیں ہمیں دھوپ وراثت میں ملی ہے
اجداد کہیں پیڑ بھی کچھ بو گئے ہوتے
کس منہ سے کہیں تجھ سے سمندر کے ہیں حقدار
سیراب سرابوں سے بھی ہم ہو گئے ہوتے
شہریار خان
No comments:
Post a Comment