Tuesday 12 May 2015

وعدہ: میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا فلمی گیت

میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا

وعدہ

اس سے پہلے کہ تیری چشمِ کرم
معذرت کی نگاہ بن جائے
اس سے پہلے کہ تیرے بام کا حُسن
رفعتِ مِہر و ماہ بن جائے
پیار ڈھل جائے میرے اشکوں میں
آرزو ایک آہ بن جائے
مجھ پہ آ جائے عشق کا الزام
اور تُو بے گناہ بن جائے
میں تِرا شہر چھوڑ جاؤں گا

اس سے پہلے کے سادگی تیری
لبِ خاموش کو گِلہ کہہ دے
میں تجھے چارہ گر خیال کروں
تُو مِرے غم کو لادوا کہہ دے
تیری مجبوریاں نہ دیکھ سکے
اور دل تجھ کو بے وفا کہہ دے
جانے میں بے خُودی میں کیا پوچھوں
جانے تُو بے رُخی سے کیا کہہ دے
میں تِرا شہر چھوڑ جاؤں گا

چارۂ درد ہو بھی سکتا تھا
مجھ کو اتنی خُوشی بہت کچھ ہے
پیار گو جاوِداں نہیں پھر بھی
پیار کی یاد بھی بہت کچھ ہے
آنے والے دنوں کی ظُلمت میں
آج کی روشنی بہت کچھ ہے
اس تہی دامنی کے عالم میں
جو مِلا ہے، وہی بہت کچھ ہے
میں تِرا شہر چھوڑ جاؤں گا

چھوڑ کر ساحلِ مراد چلا
اب سفینہ مِرا کہیں ٹھہرے
زہر پینا مِرا مقدر ہے
اور تِرے ہونٹ انگبِیں ٹھہرے
کِس طرح تیرے آستاں پہ رُکوں
جب نہ پاؤں تلے زمیں ٹھہرے
اس سے بہتر ہے دل یہی سمجھے
تُو نے روکا تھا، ہم نہیں ٹھہرے
میں تِرا شہر چھوڑ جاؤں گا

مجھ کو اِتنا ضرور کہنا ہے
وقتِ رُخصت، سلام سے پہلے
کوئی نامہ نہیں لِکھا میں نے
تیرے حرفِ پیام سے پہلے
توڑ لوں رشتۂ نظر میں بھی
تم اُتر جاؤ بام سے پہلے
لے مِری جاں میرا وعدہ ہے
کل کسی وقت شام سے پہلے
میں تِرا شہر چھوڑ جاؤں گا

سیف الدین سیف

No comments:

Post a Comment