Saturday, 30 May 2015

خوں میں لتھڑی ہوئی پوشاک سحر ملتی ہے

خوں میں لتھڑی ہوئی پوشاکِ سحر ملتی ہے
بند بوری میں کٹی لاشِ بشر ملتی ہے
خوف کے سائے نظر آتے ہیں ہر چہرے پر
سہمی سہمی ہوئی ہر راہگزر ملتی ہے
محوِ رقص اژدہے سفاکی و دہشت کے ملیں
فاختہ گریہ کناں شہر بدر ملتی ہے
گوہرِ شبنمِ تازہ تو ہُوا ہے عنقا
سُرخئ خوں سے بھری شاخِ شجر ملتی ہے
اپنے کشکول سمندر میں بہا دو لوگو
امن کی بھیک کراچی میں کدھر ملتی ہے
وَرْدؔ جھک جاتا ہے سر شرم کے مارے اپنا
جب بھی قائد سے تصور میں نظر ملتی ہے

ورد بزمی

No comments:

Post a Comment