Monday 18 May 2015

اس پیڑ کا عجیب ہی ناتا تھا دھوپ سے

اس پیڑ کا عجیب ہی ناتا تھا دھوپ سے 
خود دھوپ میں تھا سب کو بچاتا تھا دھوپ سے 
ابرِ رواں سے آبِ رواں پر وہ نقش گر 
منظر طرح طرح کے بناتا تھا دھوپ سے 
وہ رنج تھا کہ شام اترنے کے ساتھ ساتھ
سایہ سا کوئی پھیلتا جاتا تھا دھوپ سے
سورج کے دن میں اہلِ زمیں کا کفیل تھا
شب میں بھی اِک چراغ جلاتا تھا دھوپ سے
اس بے خبر کی مجھ پہ توجہ کمال تھی
کاغذ میں کوئی آگ لگاتا تھا دھوپ سے
وہ شیشۂ ہنر مجھے بچپن سے یاد ہے 
اِک پَل میں سات رنگ بناتا تھا دھوپ سے 

سعود عثمانی

No comments:

Post a Comment