اس پیڑ کا عجیب ہی ناتا تھا دھوپ سے
خود دھوپ میں تھا سب کو بچاتا تھا دھوپ سے
ابرِ رواں سے آبِ رواں پر وہ نقش گر
منظر طرح طرح کے بناتا تھا دھوپ سے
وہ رنج تھا کہ شام اترنے کے ساتھ ساتھ
سورج کے دن میں اہلِ زمیں کا کفیل تھا
شب میں بھی اِک چراغ جلاتا تھا دھوپ سے
اس بے خبر کی مجھ پہ توجہ کمال تھی
کاغذ میں کوئی آگ لگاتا تھا دھوپ سے
وہ شیشۂ ہنر مجھے بچپن سے یاد ہے
اِک پَل میں سات رنگ بناتا تھا دھوپ سے
سعود عثمانی
No comments:
Post a Comment