Friday 29 May 2015

نشان قافلہ در قافلہ رہے گا مرا

نشان قافلہ در قافلہ رہے گا مِرا
جہاں ہے گردِ سفر، سِلسلہ رہے گا مِرا
مجھے نہ تُو نے مِری زندگی گزارنے دی
زمانے! تجھ سے ہمیشہ گِلہ رہے گا مِرا
سِیہ دلوں میں ستاروں کی فصل بونے کو
ہنر چراغ کی لَو سے مِلا رہے گا مِرا
نہ گفتگو سے یہ لرزش گماں کی جائے گی
اگر اساس کا پتھر ہِلا رہے گا مِرا
ریاضؔ چپ سے بڑھے اور دکھ ضرورت کے
مجھے تھا زعم، یہ گھاؤ سِلا رہے گا مِرا

ریاض مجید​

No comments:

Post a Comment