Wednesday 27 May 2015

اپنے ہونے کا ہم اس طرح پتہ دیتے تھے

اپنے ہونے کا ہم اس طرح پتا دیتے تھے
خاک مٹھی میں اٹھاتے تھے اڑا دیتے تھے
بے ثمر جان کے ہم کاٹ چکے ہیں جو شجر
یاد آتے ہیں کہ بے چارے ہوا دیتے تھے
اس کی محفل میں وہی سچ تھا وہ جو کچھ بھی کہے
ہم بھی گونگوں کی طرح ہاتھ اٹھا دیتے تھے
اب مِرے حال پہ شرمندہ ہوئے ہیں وہ بزرگ
جو مجھے پھولنے پھلنے کی دعا دیتے تھے
اب سے پہلے جو قاتل تھے بہت اچھے تھے
قتل سے پہلے پانی تو پلا دیتے تھے
وہ ہمیں کوستا رہتا تھا زمانے بھر میں
اور ہم اپنا کوئی شعر سنا دیتے تھے
گھر کی تعمیر میں ہم برسوں رہے ہیں پاگل
روز دیوار اٹھاتے تھے، گرا دیتے تھے
ہم بھی اب جھوٹ کی پیشانی کو بوسہ دیں گے
تم بھی سچ بولنے والوں کو سزا دیتے تھے

راحت اندوری

No comments:

Post a Comment