اپنے ہونے کا ہم اس طرح پتا دیتے تھے
خاک مٹھی میں اٹھاتے تھے اڑا دیتے تھے
بے ثمر جان کے ہم کاٹ چکے ہیں جو شجر
یاد آتے ہیں کہ بے چارے ہوا دیتے تھے
اس کی محفل میں وہی سچ تھا وہ جو کچھ بھی کہے
اب مِرے حال پہ شرمندہ ہوئے ہیں وہ بزرگ
جو مجھے پھولنے پھلنے کی دعا دیتے تھے
اب سے پہلے جو قاتل تھے بہت اچھے تھے
قتل سے پہلے پانی تو پلا دیتے تھے
وہ ہمیں کوستا رہتا تھا زمانے بھر میں
اور ہم اپنا کوئی شعر سنا دیتے تھے
گھر کی تعمیر میں ہم برسوں رہے ہیں پاگل
روز دیوار اٹھاتے تھے، گرا دیتے تھے
ہم بھی اب جھوٹ کی پیشانی کو بوسہ دیں گے
تم بھی سچ بولنے والوں کو سزا دیتے تھے
راحت اندوری
No comments:
Post a Comment