جو سیلِ درد اٹھا تھا، وہ جان چھوڑ گیا
مگر وہ جسم پہ اپنا نشان چھوڑ گیا
ہر ایک چیز میں خوشبو ہے اسکے ہونے کی
عجب نشانیاں وہ مِرا میہمان چھوڑ گیا
ذرا سی دیر کو بیٹھا، جھکا گیا شاخیں
پرندہ پیڑ میں اپنی تھکان چھوڑ گیا
سمٹتی پھیلتی تہنائی، سوتے جاگتے درد
وہ اپنے اور مِرے درمیان چھوڑ گیا
بہت عزیز تھی نیند اس کو صبحِ کاذب کی
سو اس کو سوتے ہوئے کاروان چھوڑ گیا
رہا ریاض اندھیروں میں نوحہ کرنے کو
وہ آنکھیں نوچنے والا زبان چھوڑ گیا
مگر وہ جسم پہ اپنا نشان چھوڑ گیا
ہر ایک چیز میں خوشبو ہے اسکے ہونے کی
عجب نشانیاں وہ مِرا میہمان چھوڑ گیا
ذرا سی دیر کو بیٹھا، جھکا گیا شاخیں
پرندہ پیڑ میں اپنی تھکان چھوڑ گیا
سمٹتی پھیلتی تہنائی، سوتے جاگتے درد
وہ اپنے اور مِرے درمیان چھوڑ گیا
بہت عزیز تھی نیند اس کو صبحِ کاذب کی
سو اس کو سوتے ہوئے کاروان چھوڑ گیا
رہا ریاض اندھیروں میں نوحہ کرنے کو
وہ آنکھیں نوچنے والا زبان چھوڑ گیا
ریاض مجید
No comments:
Post a Comment