Wednesday 27 May 2015

چمکتے لفظ ستاروں سے چھین لائے ہیں

چمکتے لفظ ستاروں سے چھین لائے ہیں
ہم آسماں سے غزل کی زمین لائے ہیں
وہ اور ہوں گے جو خنجر چھپا کے لائے ہیں
ہم اپنے ساتھ پھٹی آستین لائے ہیں
ہماری بات کی گہرائی خاک سمجھیں گے
جو پربتوں کے لیے خوردبین لائے ہیں
ہنسو نہ ہم پہ، کہ ہم بدنصیب بنجارے
سروں پہ رکھ کے وطن کی زمین لائے ہیں
مِرے قبیلے کے بچوں کے کھیل بھی ہیں عجب
کسی سپاہی کی تلوار چھین لائے ہیں

راحت اندوری

No comments:

Post a Comment