Saturday 30 May 2015

گم سم گم سم سے رہتے ہیں ہم دل کا جانی کھو بیٹھے

گم سم گم سم سے رہتے ہیں ہم دل کا جانی کھو بیٹھے
آنکھوں سے خون ٹپکتا ہے، آنکھوں کا پانی کھو بیٹھے
جو دل میں جوت جگاتی تھی، جو شب بھر نور لٹاتی تھی
جو تیرے گھر تک آتی تھی، وہ راہ پرانی کھو بیٹھے تھے
سکھ اور دکھ کی برسات کریں، جو چاہیں اب حالات کریں
خاموش رہیں یا بات کریں، کردار کہانی کھو بیٹھے
اس جیون کا عنوان تھی جو، گزرے لمحوں کی جان تھی جو
اس الفت کی پہچان تھی جو، وہ پریم نشانی کھو بیٹھے
چاہت کا دَم جو بھرتے ہیں، کیا کہتے ہیں کیا کرتے ہیں
ہم بھولے بھالے ڈرتے ہیں، الفاظ معانی کھو بیٹھے
اب دردِ جدائی سہنا ہے، لب بستہ ہیں پر کہنا ہے
اب وَرْدؔ کی خوشبو تنہا ہے، ہم رات کی رانی کھو بیٹھے

ورد بزمی

No comments:

Post a Comment