کیوں کِسی اور کو دکھ درد سناؤں اپنے
اپنی آنکھوں سے بھی میں زخم چھپاؤں اپنے
میں تو قائم ہوں تیرے غم کی بدولت، ورنہ
یوں بِکھر جاؤں، کہ خُود ہاتھ نہ آؤں اپنے
شعر لوگوں کے بہت یاد ہیں اوروں کے لیے
تُو مِلے تو میں تجھے شعر سناؤں اپنے
تیرے رَستے کا جو کانٹا بھی میسّر آئے
میں اسے شوق سے کالر پر سجاؤں اپنے
سوچتا ہوں کہ بجھا دوں میں یہ کمرے کا دِیا
اپنے سائے کو بھی کیوں ساتھ جگاؤں اپنے
اس کی تلوار نے وہ چال چلی ہے اب کہ
پاؤں کٹتے ہیں اگر ہاتھ بچاؤں اپنے
آخری بات مجھے یاد ہے اس کی انورؔ
روگ اس کا نہ میں دل سے لگاؤں اپنے
اپنی آنکھوں سے بھی میں زخم چھپاؤں اپنے
میں تو قائم ہوں تیرے غم کی بدولت، ورنہ
یوں بِکھر جاؤں، کہ خُود ہاتھ نہ آؤں اپنے
شعر لوگوں کے بہت یاد ہیں اوروں کے لیے
تُو مِلے تو میں تجھے شعر سناؤں اپنے
تیرے رَستے کا جو کانٹا بھی میسّر آئے
میں اسے شوق سے کالر پر سجاؤں اپنے
سوچتا ہوں کہ بجھا دوں میں یہ کمرے کا دِیا
اپنے سائے کو بھی کیوں ساتھ جگاؤں اپنے
اس کی تلوار نے وہ چال چلی ہے اب کہ
پاؤں کٹتے ہیں اگر ہاتھ بچاؤں اپنے
آخری بات مجھے یاد ہے اس کی انورؔ
روگ اس کا نہ میں دل سے لگاؤں اپنے
انور مسعود
No comments:
Post a Comment