Tuesday 12 May 2015

غم دل کسی سے چھپانا پڑے گا

غمِ دل کسی سے چھُپانا پڑے گا
گھڑی دو گھڑی مُسکرانا پرے گا
یہ آلامِ ہستی، یہ دَورِ زمانہ
تو کیا اب تمہیں بھُول جانا پڑے گا
بہت بچ کے نکلے مگر کیا خبر تھی
ادھر بھی تِرا آستانہ پڑے گا
ابھی مُنکرِ عشق ہے یہ زمانہ
جو دیکھا ہے ان کو دِکھانا پڑے گا
چلو مئے کدے میں بسیرا ہی کر لیں
نہ آنا پڑے گا، نہ جانا پڑے گا
نہ ہو گا کبھی فیصلہ کُفر و دِیں کا
تمہیں رُخ سے پردہ ہٹانا پڑے گا
نہیں بھُولتا سیفؔ! عہدِ تمنّا
مگر رفتہ رفتہ بھُلانا پڑے گا

سیف الدین سیف

No comments:

Post a Comment