Wednesday 27 May 2015

ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے

ہاتھ خالی ہیں تِرے شہر سے جاتے جاتے
جان ہوتی تو میری جان! لٹاتے جاتے
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے تِرے شہر میں آتے جاتے
رِینگنے کی بھی اجازت نہیں ہم کو، ورنہ
ہم جدھر جاتے، نئے پھول کھلاتے جاتے
مجھ میں رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید
لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے
اب کہ مایوس ہوا یاروں کو رخصت کر کے
جا رہے تھے تو کوئی زخم لگاتے جاتے
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم، راہ کا پتھر تو ہٹاتے جاتے

راحت اندوری

No comments:

Post a Comment