ہاتھ خالی ہیں تِرے شہر سے جاتے جاتے
جان ہوتی تو میری جان! لٹاتے جاتے
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے تِرے شہر میں آتے جاتے
رِینگنے کی بھی اجازت نہیں ہم کو، ورنہ
مجھ میں رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید
لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے
اب کہ مایوس ہوا یاروں کو رخصت کر کے
جا رہے تھے تو کوئی زخم لگاتے جاتے
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم، راہ کا پتھر تو ہٹاتے جاتے
راحت اندوری
No comments:
Post a Comment