Thursday 14 May 2015

خو سمجھ میں نہیں آتی ترے دیوانوں کی

خُو سمجھ میں نہیں آتی تِرے دیوانوں کی
دامنوں کی خبر ہے، نہ گریبانوں کی
جلوۂ ساغر و مِینا ہے جو ہمرنگِ بہار
رونقیں طُرفہ ترقی پہ ہیں مے خانوں کی
ہر طرف بے خودی و بے خبری کی ہے نمود
قابلِ دِید ہے دنیا تیرے حیرانوں کی
سہل اس سے تو یہی ہے کہ سنبھالیں دل کو
منتیں کون کرے آپ کے دربانوں کی
آنکھ والے تِری صُورت پہ مِٹے جاتے ہیں
شمع محفل کی طرف بھِیڑ ہے پروانوں کی
اے جفاکار! تِرے عہد سے پہلے تو نہ تھی
کثرت اس درجہ محبت کے پشیمانوں کی
رازِ غم سے ہمیں آگاہ کیا، خُوب کیا
کچھ نہایت ہی نہیں آپ کے احسانوں کی
دشمنِ اہلِ مروت ہے وہ بے گانہ انس
شکل پریوں کی ہے خُو بھی نہیں انسانوں کی
فیض ساقی کی عجب دھوم ہے مے خانوں میں
ہر طرف مے کی طلب، مانگ ہے پیمانوں کی
عاشقوں ہی کا جِگر ہے کہ ہیں خرسندِ جفا
کافروں کی ہے یہ ہمت نہ مسلمانوں کی
یاد پھر تازہ ہوئی حال سے تیرے حسرتؔ
قیس و فرہاد کے گزرے ہوئے افسانوں کی

حسرت موہانی

No comments:

Post a Comment