Thursday 14 May 2015

سب سے چھپتے ہیں چھپیں مجھ سے تو پردا نہ کریں

سب سے چھپتے ہیں چھپیں، مجھ سے تو پردا نہ کریں
سیرِ گلشن وہ کریں شوق سے، تنہا نہ کریں
اب تو آتا ہے یہی جی میں کہ اے محوِ جفا
کچھ بھی ہو جائے مگر تیری تمنّا نہ کریں
میں ہوں مجبور تو مجبور کی پُرسِش ہے ضرور
وہ مسیحا ہیں تو بیمار کو اچھا نہ کریں
دردِ دل اور نہ بڑھ جائے تسلّی سے کہیں
آپ اس کام کا زِنہار ارادہ نہ کریں
شکوۂ جور، تقاضائے کرم، عرضِ وفا
تم جو مِل جاؤ کہیں ہم کو تو کیا کیا نہ کریں
نورِ جاں کے لئے کیوں ہو کسی کامل کی تلاش
ہم تِری صُورت زیبا کا تماشا نہ کریں
حال کھُل جائے گا بیتابئ دل کا حسرتؔ
بار بار آپ انہیں شوق سے دیکھا نہ کریں

حسرت موہانی

No comments:

Post a Comment