سنتا ہوں کہ وہ نہیں انکاری اس بات سے
کوئی نسبت تھی کبھی تجھ کو میری ذات سے
تُو میرے ہمراہ تھا دروازے تک شام کے
اس کے آگے کیا ہوا پوچھا جائے رات سے
پچھلی بارش میں مجھے خواہش تھی سیلاب کی
کام آئے جو ہجر کے ہر آیندہ موڑ پر
ایسا اک تحفہ مجھے دے تُو اپنے ہاتھ سے
ہاں مجھ کو بھی دیکھ لے جینے کی لت پڑ گئی
ہاں تُو نے بھی کر لیا سمجھوتہ حالات سے
شہریار خان
No comments:
Post a Comment