Thursday, 28 May 2015

کوئی بھی لمحہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا

کوئی بھی لمحہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا
وہ شخص ایسا گیا، پھر نظر نہیں آیا
وفا کے دشت میں رَستہ نہیں مِلا کوئی
سوائے گردِ سفر، ہمسفر نہیں آیا
پلٹ کے آنے لگے شام کے پرندے بھی
ہمارا صُبح کا بُھولا مگر نہیں آیا
کسی چراغ نے پوچھی نہیں خبر میری
کوئی بھی پُھول مِرے نام پر نہیں آیا
چلو کہ کوچۂ قاتل سے ہم ہی ہو آئیں
کہ نخلِ درا پہ کب سے ثمر نہیں آیا
خدا کے خوف سے دل لرزتے رہتے ہیں
انہیں کبھی بھی زمانے سے ڈر نہیں آیا
کدھر کو جاتے ہیں رستے، یہ راز کیسے کُھلے
جہاں میں کوئی بھی بارِ دِگر نہیں آیا
یہ کیسی بات کہی شام کے ستارے نے
کہ چَین دل کو مِرے رات بھر نہیں آیا
ہمیں یقین ہے امجدؔ نہیں وہ وعدہ خلاف
پہ عمر کیسے کٹے گی، اگر نہیں آیا

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment