پیروں کو میرے دیدۂ تر باندھے ہوئے ہے
زنجیر کی صورت مجھے گھر باندھے ہوئے ہے
ہر چہرے میں آتا ہے نظر ایک ہی چہرہ
لگتا ہے کوئی میری نظر باندھے ہوئے ہے
بچھڑیں گے تو مر جائیں گے ہم دونوں بچھڑ کر
اک ڈور میں ہم کو یہی ڈر باندھے ہوئے ہے
پرواز کی طاقت بھی نہیں باقی ہے لیکن
صیاد ابھی تک مرے پر باندھے ہوئے ہے
آنکھیں تو اسے گھر سے نکلنے نہیں دیتیں
آنسو ہیں کہ سامان سفر باندھے ہوئے ہے
ہم ہیں کہ کبھی ضبط کا دامن نہیں چھوڑا
دل ہے کہ دھڑکنے پہ کمر باندھے ہوئے ہے
پھینکی نہ منورؔ نے بزرگوں کی نشانی
دستار پرانی ہے مگر باندھے ہوئے ہے
منور رانا
زنجیر کی صورت مجھے گھر باندھے ہوئے ہے
ہر چہرے میں آتا ہے نظر ایک ہی چہرہ
لگتا ہے کوئی میری نظر باندھے ہوئے ہے
بچھڑیں گے تو مر جائیں گے ہم دونوں بچھڑ کر
اک ڈور میں ہم کو یہی ڈر باندھے ہوئے ہے
پرواز کی طاقت بھی نہیں باقی ہے لیکن
صیاد ابھی تک مرے پر باندھے ہوئے ہے
آنکھیں تو اسے گھر سے نکلنے نہیں دیتیں
آنسو ہیں کہ سامان سفر باندھے ہوئے ہے
ہم ہیں کہ کبھی ضبط کا دامن نہیں چھوڑا
دل ہے کہ دھڑکنے پہ کمر باندھے ہوئے ہے
پھینکی نہ منورؔ نے بزرگوں کی نشانی
دستار پرانی ہے مگر باندھے ہوئے ہے
منور رانا
No comments:
Post a Comment