منزل کے خواب دیکھتے ہیں پاؤں کاٹ کے
کیا سادہ دل یہ لوگ ہیں گھر کے نہ گھاٹ کے
اب اپنے آنسوؤں میں ہیں ڈوبے ہوئے تمام
آئے تھے اپنے خون کا دریا جو پاٹ کے
شہرِ وفا میں حقِ نمک یوں ادا ہوا
محفل میں ہیں لگے ہوئے پیوند ٹاٹ کے
کھِنچتی تھی جن کے خوف سے سدِ سکندری
سوئے نہیں ہیں آج وہ دیوار چاٹ کے
اب تو درندگی کی نعش بھی حسِین ہے
دیوار پہ سجاتے ہیں سر کاٹ کاٹ کے
حمایت علی شاعر
کیا سادہ دل یہ لوگ ہیں گھر کے نہ گھاٹ کے
اب اپنے آنسوؤں میں ہیں ڈوبے ہوئے تمام
آئے تھے اپنے خون کا دریا جو پاٹ کے
شہرِ وفا میں حقِ نمک یوں ادا ہوا
محفل میں ہیں لگے ہوئے پیوند ٹاٹ کے
کھِنچتی تھی جن کے خوف سے سدِ سکندری
سوئے نہیں ہیں آج وہ دیوار چاٹ کے
اب تو درندگی کی نعش بھی حسِین ہے
دیوار پہ سجاتے ہیں سر کاٹ کاٹ کے
حمایت علی شاعر
No comments:
Post a Comment