Thursday 28 May 2015

نہ کوئی رنگ نہ ہاتھوں میں حنا میرے بعد

نہ کوئی رنگ نہ ہاتھوں میں حنا میرے بعد
وہ مکمل ہی سِیہ پوش ہوا میرے بعد
لےکے جاتا رہا ہر شام وہ پھول اور چراغ
بس یہی اس نے کِیا، جتنا جِیا میرے بعد
روز جا کر وہ سمندر کے کنارے چپ چاپ
ناؤ کاغذ کی بہاتا ہی رہا میرے بعد
اس کے ہونٹوں سے مِرا نام نکل جاتا تھا
جس نے اپنایا اسے، چھوڑ دیا میرے بعد
اِک پرندہ جو بلاتا تھا اسے میری طرح
وہ پرندہ بھی قفس میں نہ رہا میرے بعد
میں نے گرنے نہ دیئے تھے کبھی آنسو اس کے
شاید اس واسطے وہ رو نہ سکا میرے بعد
میں بھی ویسا نہ رہا اس کے بچھڑ جانے سے
کوئی اس کو بھی نہ پہچان سکا میرے بعد
ساری دنیا نے اسے مالِ غنیمت سمجھا
جو نہ سوچا تھا کبھی، وہ بھی ہوا میرے بعد
اس کا ہنسنا مجھے بھاتا تھا سو وہ شخص عدیمؔ
بال کھولے ہوئے ہنستا ہی رہا میرے بعد

عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment