چاہتا کچھ ہوں مگر لب پہ دعا ہے کچھ اور
دل کے اطراف کی دیکھو تو فضا ہے کچھ اور
جو مکاں دار ہیں دنیا میں، انہیں کیا معلوم
گھر کی تعمیر کی حسرت کا مزا ہے کچھ اور
جسم کے ساز پہ سنتا تھا عجب سا نغمہ
پیشگوئی پہ نجومی کی بھروسا کیسا
وقت کے دریا کے پانی پہ لکھا ہے کچھ اور
تُو وفا کیش ہے، جی جان سے چاہا ہے تجھے
تیرے بارے میں پہ لوگوں سے سنا ہے کچھ اور
شہریار خان
No comments:
Post a Comment