وہ بالادست سہی قبضے میں جان تھوڑی ہے
فقط ہے شاہ کا حکم، یہ اذان تھوڑی ہے
جو میرے لٹنے کا سن کر کہیں ہنسا ہے بہت
اسے بتا دو، کسی کو امان تھوڑی ہے
تمہیں میں اب بھی سمجھتا ہوں غمگسار اپنا
میرے قلم کی لکھائی کو جرم کہتے ہو
لو میرے ہاتھ میں تیر و کمان تھوڑی ہے
جو کہہ دیا سو کہا اب بدلنے کا نہیں
یہ میری رائے ہے، تمہارا بیان تھوڑی ہے
میں اپنے فرض پر مٹنے سے یوں نہیں ڈرتا
مجھے یقیں ہے اس پر، گمان تھوڑی ہے
مچے گا شور، بھلے ظلم کی چلے آندھی
میرا وطن ہے یہ قبرستان تھوڑی ہے
راحت اندوری
No comments:
Post a Comment