Thursday 28 May 2015

گزرے ہوئے طویل زمانے کے بعد بھی

گزرے ہوئے طویل زمانے کے بعد بھی
دل میں رہا وہ چھوڑ کے جانے کے بعد بھی
پہلو میں رہ کے دل نے دیا ہے بہت فریب
رکھا ہے اس کو یاد بھلانے کے بعد بھی
وہ حسن ہے، کسی میں نہیں تابِ دید کی
پنہاں ہے وہ نقاب اٹھانے کے بعد بھی
قربت کے بعد اور بھی قربت کی ہے تلاش
دل مطمئن نہیں تیرے آنے کے بعد بھی
گو تُو یہاں نہیں ہے، مگر تُو یہیں پہ ہے
تیرا ہی ذکر ہے تیرے جانے کے بعد بھی
ساری زمیں کا نور بھی سورج نہ بن سکا
شب ہی رہی چراغ جلانے کے بعد بھی
نارِ حسد نے دل کو جلایا ہے یوں عدیمؔ
یہ تو نشاں رہے گا مٹانے کے بعد بھی
لگتا ہے کچھ کہا ہی نہیں ہے اسے عدیمؔ
دل کا تمام حال سنانے کے بعد بھی

عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment