Wednesday 27 May 2015

روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے

روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے
چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے
ایک دیوانہ مسافر ہے میری آنکھوں میں
وقت بے وقت ٹھہر جاتا ہے، چل پڑتا ہے
اپنی تعبیر کے چکر میں میرا جاگتا خواب
روز سورج کی طرح گھر سے نکل پڑتا ہے
روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں
روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے
اس کی یاد آئی، سانسو! ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے

راحت اندوری

No comments:

Post a Comment