Saturday 16 May 2015

عشق میں جس کے یہ احوال بنا رکھا ہے

عشق میں جس کے یہ احوال بنا رکھا ہے
اب وہی کہتا ہے اِس وضع میں کیا رکھا ہے
لے چلے ہو مجھے اس بزم میں یارو! لیکن
کچھ مِرا حال بھی پہلے سے سُنا رکھا ہے
حالِ دل کون سنائے اُسے، فُرصت کس کو
سب کو اُس آنکھ نے باتوں میں لگا رکھا ہے
دل بُرا تھا کہ بھَلا، کام وفا کے آیا
یار! جانے بھی دے، اِس بحث میں کیا رکھا ہے
اے صبا! آ کہ دکھائیں تجھے وہ گُل، جس نے
باتوں ہی باتوں میں گُلزار کھِلا رکھا ہے
دیکھ اے دل! نہ کہیں بات یہ اس تک پہنچے
چشمِ نمناک نے طُوفان اٹھا رکھا ہے
حسن چاہے جسے، ہنس بول کے اپنا کر لے
دل نے اپنوں کو بھی بے گانہ بنا رکھا ہے
دل جو اس بزم میں آتا ہے، تو جاتا ہی نہیں
ایک دن دیکھنا دیوانہ ہُوا رکھا ہے
حال مت پوچھ محبت کا، ہَوا ہے کچھ اور
لا کے کس نے یہ سرِ راہ دِیا رکھا ہے
انتظام ایسا، کہ گَھٹتی ہی نہیں رونقِ بزم
ہم سے کتنے ہیں، کہ وعدے پہ لگا رکھا ہے
ہوش تو پہلے ہی کھو آئے ہیں اس محفل میں
اب اگر جائیں تو پھر دل بھی گیا رکھا ہے
تیرے آنے کی خبر پا کے ابھی سے دل نے
شکوہ کو اور کسی دن پہ اُٹھا رکھا ہے
باربا، یُوں ہُوا، تیری محبت کی قسم
جان کر ہم نے تجھے خود سے خفا رکھا ہے
دشت و در خیر منائیں، کہ ابھی وحشت میں
عشق نے، پہلا قدم، نامِ خدا رکھا ہے
ہِجر مین رَنج بھی کرتے ہیں، پہ اتنا بھی سلیمؔ
یار! تُو نے تو عجب حال بنا رکھا ہے

سلیم احمد

No comments:

Post a Comment