Wednesday 27 May 2015

اک مہک سی دم تحریر کہاں سے آئی

اِک مہک سی دمِ تحریر کہاں سے آئی
نام میں تیرے یہ تاثیر کہاں سے آئی
پہلوئے ساز سے اِک موجِ ہوا گزری تھی
یہ چھنکتی ہوئی زنجیر کہاں سے آئی
دَم ہمارا تو رہا حلقۂ لب ہی میں اسیر
بُوئے گل یہ تِری تقدیر کہاں سے آئی
اہلِ ہمت کے مِٹانے سے تو فارغ ہو لے
دہر کو فرصتِ تعمیر کہاں سے آئی
گو ترستا ہے ابھی تک تِری تحریر کو دل
پھر بھی جانے تِری تصویر کہاں سے آئی
یوں ہی ہو جاتا ہے قسمت سے کوئی غم بیدار
عشق کے ہاتھ میں تدبیر کہاں سے آئی
کس طرف جاتے ہیں یارو یہ بگڑتے ہوئے نقش
یہ سنورتی ہوئی تصویر کہاں سے آئی
لحنِ بلبل کا چلا کون سے گل پر افسوں
صرف اِک طرز ہے تاثیر کہاں سے آئی
پڑ گیا سوزِ سخن ہاتھ ہمارے کیونکر
خاک ہونے کو یہ اکسیر کہاں سے آئی

شان الحق حقی

No comments:

Post a Comment