جانے کسی نے کیا کہا تیز ہوا کے شور میں
مجھ سے سُنا نہیں گیا تیز ہوا کے شور میں
میں بھی تجھے نہ سُن سکا تُو بھی مجھے نہ سُن سکا
تجھ سے ہُوا مکالمہ، تیز ہوا کے شور میں
کشتیوں والے بے خبر بڑھتے رہے بھنور کی سمت
اور میں چیختا رہا تیز ہوا کے شور میں
میری زبانِ آتشی لَو تھی میرے چراغ کی
میرا چراغ چُپ نہ تھا تیز ہوا کے شور میں
جیسے خروشِ بحر میں شورِ پرند ڈوب جائے
ڈوب گئی مِری صدا تیز ہوا کے شور میں
نوحہ گرانِ شامِ غم تم نے سُنا نہیں، مگر
کیسا عجیب درد تھا تیز ہوا کے شور میں
میرے مکاں کی چھت پہ تھے طائرِ شب ڈرے ڈرے
جیسے پیامِ مَرگ تھا تیز ہوا کے شور میں
منت گوشِ بے احساں کون اٹھائے اب سلیمؔ
نوحۂ غم مِلا دیا تیز ہوا کے شور میں
مجھ سے سُنا نہیں گیا تیز ہوا کے شور میں
میں بھی تجھے نہ سُن سکا تُو بھی مجھے نہ سُن سکا
تجھ سے ہُوا مکالمہ، تیز ہوا کے شور میں
کشتیوں والے بے خبر بڑھتے رہے بھنور کی سمت
اور میں چیختا رہا تیز ہوا کے شور میں
میری زبانِ آتشی لَو تھی میرے چراغ کی
میرا چراغ چُپ نہ تھا تیز ہوا کے شور میں
جیسے خروشِ بحر میں شورِ پرند ڈوب جائے
ڈوب گئی مِری صدا تیز ہوا کے شور میں
نوحہ گرانِ شامِ غم تم نے سُنا نہیں، مگر
کیسا عجیب درد تھا تیز ہوا کے شور میں
میرے مکاں کی چھت پہ تھے طائرِ شب ڈرے ڈرے
جیسے پیامِ مَرگ تھا تیز ہوا کے شور میں
منت گوشِ بے احساں کون اٹھائے اب سلیمؔ
نوحۂ غم مِلا دیا تیز ہوا کے شور میں
سلیم احمد
No comments:
Post a Comment