Saturday 16 May 2015

دلوں میں درد بھرتا آنکھ میں گوہر بناتا ہوں

دلوں میں درد بھرتا، آنکھ میں گوہر بناتا ہوں
جنہیں مائیں پہنتی ہیں میں وہ زیور بناتا ہوں
غنِیمِ وقت کے حملے کا مجھ کو خوف رہتا ہے
میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں
پرانی کشتیاں ہیں میرے ملاحوں کی قسمت میں
میں ان کے بادباں سِیتا ہوں اور لنگر بناتا ہوں
یہ سوچا ہے کہ اب خانہ بدوشی کر کے دیکھوں گا
کوئی آفت ہی آتی ہے اگر میں گھر بناتا ہوں
یہ دھرتی میری ماں ہے اس کی عزت مجھ کو پیاری ہے
میں اس کا سر چھپانے کے لئے چادر بناتا ہوں
حریفانِ فسُوں گر! مؤقلم ہے میرے ہاتھوں میں
یہی میرا عصا ہے، اس سے میں اژدر بناتا ہوں
مجھے ان سیپیوں کو دیکھ کر ہونہی خیال آیا
یہ پانی سے میں اپنے خون سے گوہر بناتا ہوں
مِرے خوابوں پہ جب تِیرہ شبی یلغار کرتی ہے
میں کِرنیں گُوندھتا ہوں، چاند سے پیکر بناتا ہوں

سلیم احمد

No comments:

Post a Comment