Tuesday, 12 May 2015

اس بار وہ ملا تو عجیب اس کا رنگ تھا

اِس بار وہ مِلا تو عجیب اُس کا رنگ تھا
الفاظ میں ترنگ، نہ لہجہ دَبنگ تھا
اِک سوچ تھی کہ بِکھری ہوئی خال و خد میں تھی
اِک درد تھا کہ جس کا شاہد انگ انگ تھا
اِک آگ تھی کہ راکھ میں پوشیدہ تھی کہیں
اِک جِسم تھا کہ رُوح سے مصروفِ جنگ تھا
میں نے کہا کہ یار تمہیں کیا ہوا ہے یہ
اُس نے کہا کہ عمرِ رواں کی عطا ہے یہ
میں نے کہا کہ عمرِ رواں تو سبھی کی ہے
اُس نے کہا کہ فکر و نظر کی عطا ہے یہ
میں نے کہا کہ سوچتا رہتا تو میں بھی ہوں
اُس نے کہا کہ آئینہ رکھا ہوا ہے یہ
دیکھا تو میرا اپنا ہی عکسِ جمال تھا وہ
وہ میں تھا، اور حمایت علی تھا وہ

حمایت علی شاعر

No comments:

Post a Comment