Tuesday 12 May 2015

اب بتاؤ جائے گی زندگی کہاں یارو

اب بتاؤ! جائے گی زندگی کہاں یارو
پھر ہیں برق کی نظریں سُوئے آشیاں یارو
اب نہ کوئی منزل ہے اور نہ رہگزر کوئی
جانے قافلہ بھٹکے اب کہاں کہاں یارو
پھول ہیں کہ لاشیں ہیں، باغ ہے کہ مقتل ہے
شاخ شاخ ہوتا ہے دار کا گُماں یارو
موت سے گزر کر یہ کیسی زندگی پائی
فکر پا بہ جولاں ہے، گُنگ ہے زباں یارو
تُربتوں کی شمعیں ہیں اور گہری خاموشی
جا رہے ہیں کس جانب، آ گئے کہاں یارو
راہزن کے بارے میں اور کیا کہوں کھُل کر
میرِ کارواں یارو! میرِ کارواں یارو
صرف زندہ رہنے کو زندگی نہیں کہتے
کچھ غمِ محبت ہو، کچھ غمِ جہاں یارو

حمایت علی شاعر

No comments:

Post a Comment