Saturday, 16 May 2015

وہ مرے دل کی روشنی وہ مرے داغ لے گئی

وہ مِرے دل کی روشنی، وہ میرے داغ لے گئی
ایسی چلی ہوائے شام، سارے چراغ لے گئی
شاخ و گُل و ثمر کی بات کون کرے، کہ ایک رات
بادِ شمال آئی تھی، باغ کا باغ لے گئی
وقت کی موجِ تُند رو آئی تھی، سُوئے مے کدہ
میری شراب پھینک کر میرے ایاغ لے گئی
دل کا حساب کیا کریں، دل تو اُسی کا مال تھا
نکہتِ زُلفِ عنبریں، اب کے دماغ لے گئی
باغ تھا اس میں حوض تھا، حوض تھا اس میں پھول تھا
غیر کی بے بصیرتی مجھ سے سُراغ لے گئی

سلیم احمد

No comments:

Post a Comment